مدارس کے نصاب تعلیم میں اصلاح کی بیحدضرورت ہے اور مدارس کے طلباء کو مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے اگر مدارس کے طلبہ کو مواقع فراہم کیاجائے اور مدارس کے نظام میں بہتری لائی جائے تو مدارس کے طلبہ ہرمیدان میں فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ علم جہل کی ضد ہے اورعلم کا مطلب ہے جاننا یعنی ذہن میں کسی چیز کا منکشف ہوجانا،جبکہ متکلمین کے نزدیک علم یہ صفت جس شخص کے ساتھ قائم ہو اس کے نزدیک ذکرکردہ چیز بالکل واضح ہوجائے اور فلاسفہ حالت ادارکیہ کو علم کہتے ہیں علم، ادارک الکلیات کے ساتھ خاص ہے اور معرفت، ادارک الجزئیات کے ساتھ اسی طرح عقل سے جو چیز معلوم ہواس کو علم کہتے ہیں اور حواس سے جو چیز معلو م ہو اس کوشعور کہتے ہیں اورحصول علم کے تین ذرائع ہیں خبرصادق،حواس سلیمہ،اورعقل۔ان تعریفات سے معلوم ہوا کہ علم کامطلب کسی چیز کو پورے طور پر سمجھنا ہے لہذا عصر ی تعلیمی تقاضوں سے بے اعتنائی برتتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں ہیں۔
چنانچہ ہمیں بنیادی اصلاحات کی جانب توجہ مرکوز رکھتے ہوئے دینی علوم اور دنیاوی علوم کی تقسیم پر از سرنو غور وخوض کر نے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تعلیمی تقاضوں کے ساتھ مدار س میں اساتذہ کی تقرری کا مسئلہ بھی قابل اصلاح عمل ہے ایک معیار متعین ہونا از حد ضرور ی ہے اور ساتھ ہی اساتذہ کی تربیت وٹریننگ بھی لازم وضرور ی ہے، اہالیان مدارس کو اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نیز مدارس کے ذمہ دارن کو چاہیے کہ وہ بین المذاہب ربط وضبط پر بھی توجہ دیں اور مدارس کے پروگرام وتقریبات میں دیگرمذاہب کے سنجیدہ عوام وخواص کو بھی حتی ا لامکان مدعو کریں تاکہ عہد حاضر میں مدارس کے خلاف اٹھنے والے پروپیگنڈوں پرکچھ حدتک قدغن لگائی جاسکے خیال رہے کہ غیروں کا استقبال مدارس میں اسی وقت مناسب ہوگا جب ہم اپنے ادارے میں اس طرح کی تیاری کرلیں جواصلاحی واخلاقی موعظ حسنہ انسانی مساواتی پیغامات پر مرکوز ہو۔ ورنہ معاملہ برعکس بھی ہوسکتاہے۔
ایک عہد تھا کہ جب علم کلام،علم منطق،علم فلسفہ،علم جفر، علم ہیئت جیسے دیگر علوم جدیدہ اس عہدکی عصری تقاضوں کے تحت حاصل کیا جاتاتھا اورانہیں تقاضوں کی بناء پر ان علوم میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں اور شاندار مدرس بھی پیداہوئے جنہیں ان علوم وفنون پر مہارت حاصل تھی۔ اوریہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہردو ر میں دینی تقاضے تبدیل ہوتے رہتے ہیں اورعہد حاضر دینی علوم کے ساتھ عصری ومادی علوم کا تقاضا کررہاہے مگر آج ہمارے مدارس عصری تقاضوں سے بے اعتنا ہوجاتے جارہے ہیں اور تعلیم کو تقسیم کربہت بڑی ناانصافی کررہے ہیں موجود ہ عہدمیں سائنس وٹکنالوجی اور میڈیکل سائنس میں نت نئے ایجادات اپنے ساتھ بہترے تقاضے پیداکررہے ہیں آج کرپٹو کرنسی کا مسئلہ ہے حجاب کا مسئلہ ہے چاندپر پہنچنے کا مسئلہ ہے مصنوعی ذہانت کا مسئلہ ہے بیع وشراء نکاح وطلاق کے نت نئے آن لائن مسائل ہیں ان کے علاوہ بھی جدت فکر کی بناء پرایسے ایسے ندرت سے بھرپور عقائد ومسائل درپیش ہیں جن کے حل کے لئے ایسے فکر رساعالم وفقیہ کی حاجت و ضروت ہے جودینی وعصری لحاظ سے عقدہ کشائی کرسکے ہمیں ایسے عالم وفقیہ کی حاجت ہے جو قانون فقہ کا بھی بہترین علم رکھتاہواورمعاشیات میں بھی دستگاہ کامل ہو ہمیں ایسے عالم کی ضروت ہے جو مخمصے کے شکارافراد کے باعث تسکین وقلب کے لئے جدید ٹکنالوجی سے آرستہ وپیراستہ جواب دینے میں یدطولی رکھتاہو ہو۔
آپ کو یقین ہو یانہ ہو مگر دنیا کا دانشور طبقہ اس بات کا معترف ہے کہ مدارس کے طلبہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں مختصر سی مدت میں وہ حیرت انگیز کارنامہ کردکھاتے ہیں جو خالص عصری اداروں کے حامل طلبہ بہت کم کرپاتے ہیں، محنت ولگن اور یکسوئی سے پڑھنے کا جذبہ جو ایک مدرسے کے طالب علم میں ہوتا ہے وہ دیگر انسٹی ٹیوٹ کے طالب علموں میں بہت کم ہوتا ہے بس ہمیں نظام تعلیم مدارس میں قدرے جدت طرازی کرکے طلبہ کو وسائل ومواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن یادرہے کہ عصری ومادی تعلیم کامقصد ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مدرسوں کی تعلیم کی مخالفت ہو،اس لئے عصر ی تعلیم کی مدارس میں شمولیت مدارس کے نصاب تعلیم کو متاثر کیے بغیر ہونا چاہیے چونکہ مدارس کا قیام بنیادی طور پر شرعی ودینی ضرورت کے لئے ہواہے نہ کے مادی وعصری تعلیم کے لئے۔چنانچہ عموما دیکھنے میں آتاہے کہ ہر ذی ہوش اور دانشور شمار کیے جانے والا طبقہ مدارس میں عصری تعلیم کی وکالت تو کرتا ہے مگر کوئی بھی عصری کالج،ویونیورسٹی اور اسکول میں دینی کتب اور دینی نصاب داخل کرنے کی بات نہیں کرتا ہے اور نہ قدرامکان کوشش کرتاہے، اس لئے ہمیں اس معاملے میں بیدار مغزہوکر اپنے حقوق کی پاسداری کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر پھی نگاہ رکھنی چاہیے اورہمیں سمجھنا چاہیے کہ مدارس اسلامیہ ہماری مشترک تاریخی وتہذیبی وتمدنی اور سماجی ور اثت ہیں لہذاہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اس ورثے کی تحفظ وترویج پر دھیان دینے اورکان دھرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ،مدارس اسلامیہ مسلم معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں ان کا وجود ہمارے مسلم معاشرے کے قیام کے لئے ناگزیر ہیں ۔