اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“
اللہ کے رسول کے بعد دین کو پہنچانے کی ذمہ داری اس امت پر عائد کی گئی ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین،تابعین وتبع تابعین اور بعد کے آنے والوں نے اپنے اپنے زمانے کے اعتبار سے حالات کو دیکھتے ہوئے مختلف حیثیت اور نوعیت سے دین کا کام کیا،اگر چہ سب کی منزل مقصود ایک ہے لیکن طریقہ کار،اسلوب مختلف رہا ہے،اسی طر ح سے جن شخصیات نے اسلام کے حوالہ سے جو بھی خدمت کی ہوان کے زماں و مکاں کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے ان سب چیزوں کو دیکھ کر ہم اصلاحی اور تجدیدی نوعیت کے کام کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
جو بھی دین کا کا م کررہے ہیں وہ قابل ِ قدر ہے۔ اس لیے کہ دین کے سب شعبوں کا احاطہ کرنا کسی ایک تنظیم یا جماعت کے لیے آسان کام نہیں ہے، جو اصلاحی اور دینی کام ہوتا ہے اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے،ان کا ساتھ دینا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔
”تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی اس دور میں ملت اسلامیہ کا سرمایہ ہیں۔ان دونوں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ مثبت طریقہ سے اپنے اپنے خاص دائرہ کار اور طریق کار کے مطابق اپنی دعوتی سر گرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔تقریبا ً تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک میں ان کے حلقے اور جماعتیں مصروف تبلیغ ہیں۔انہوں نے کبھی کافر قرار دے کر ملت سے خارج نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے خلاف ضال اور مضل کا فتوی جاری کیا۔ دونوں جماعتوں نے کروڑوں لوگوں تک دین حق کا پیغام پہنچایا اور ان میں سے لاکھوں لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا اب بھی ایسی صحت مند روایات یونہی قائم رہیں تو اسلام اور مسلمانوں کا روشن مستقبل ہوگا ان شاء اللہ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کے حالات کے تناظر میں اللہ تعالی نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒ اورحضرت مولانا الیاس ؒ دونوں بزرگوں سے کام لیا۔اگر چہ دونوں کے کام کا طریقہ کار مختلف رہا لیکن مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہی تھا اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا حصول پیش نظر تھا“۔
اب ہم مختصراً تبلیغی جماعت اور مولانا الیاس ؒ کی خدمات کے حوالہ سے کچھ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سن ۱۹۱۲ءمیں ہندوستان میں آریوں کی کوشش سے دہلی کے قرب وجوار میوات وغیرہ کے علاقے میں ارتداد کی آگ پھیلی،مسلمان جو پہلے سے خدا اور رسول کی تعلیم سے نا آشنا تھے ہی،بلکہ نام کے مسلمان بن کر قبروں کی پوجا کرنا،جاہلی تہوار منانا،چائے خانوں،لہو ولعب کی محفلوں،بازاروں جوا اور شراب کے اڈوں پر ہنستے اور مذاق کرتے رہنا ایک عام مشغلہ بن چکا تھا۔بعض مسلمان اسی طرح کے اثرات کی وجہ سے ارتداد کی طرف مائل ہوچکے تھے،اسلام کے خلاف خطرات کے بادل کو مولانا الیاس ؒ کے دھڑکتے دل نے محسوس کیا،انہوں نے مظاہر العلوم سہارنپور میں اپنا درس وتدریس کا کام چھوڑ کر مسلمانوں کی اصلاح کا کام شروع کیا،ان کے پیش نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کا عقیدہ درست ہو،ان کی دینی نہج پر تربیت ہو اورانہیں تقوی سے آراستہ کیا جائے،ابتداء میں ان کو بڑی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔اللہ نے ان کے کام میں برکت دی،ان کو مسلمانوں میں حسن قبول عطا فرمایا۔مولانا نے ابتداء میں میوات کے پورے علاقے میں بڑی محنت سے دورہ کیا،میلوں پیادہ چل کر بیل گاڑی میں بیٹھ کر جہاں سڑک تھی موٹر پر پورے علاقے میں سالہا سال پھرتے رہے،جگہ جگہ مسجدوں اور مکاتب کا انتظام کیا۔ہر جگہ وعظ کیا،لوگوں سے ملاقاتیں کی،ان کو اپنے سے آشنا کیا،ان کو سمجھایا،دین بتلایا،کلمہ سکھایا۔جو سیکھتے چلے گئے دوسروں کو سکھانے اور بتانے کا کام ان کے سپرد کیا،غرض مختلف صلاحیتوں سے لوگوں کو اپنے طرزِ دعوت سے آشنا کراکر قرب وجوار میں تھوڑی تعداد اس شرط کے ساتھ روانہ فرمایا کہ کھانے پینے اور سفر کا مکمل خرچہ اپنی جیب سے ادا کرینگے۔اسی طرح گاؤں گاؤں مخلص سپاہی قرب وجوار میں پھیلنا شروع ہوئے اور چند سال بعد چوروں اور ڈاکوؤں کا جرائم پیشہ گروہ نیک صالح اور دیندار مسلمانوں کی جماعت بن گئی۔مولانا کا طریق دعوت بالکل سادہ تھا،خود سادہ تھے،سراپہ اخلاص تھے،سراپا درد تھے،دین کے سچے غم خوار اور مسلمانوں کے بدل خدمت گزار،اللہ پر متوکل،ایک دُھن تھی کہ دن رات ان کو بے قرار رکھتی تھی،ان کا چلنا،پھرنا،اٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا،جو تھا وہ صرف دین کی خدمت اور مسلمانوں کی غم خواری اور اصلاح کی فکر تھی،یہی ان کی تقریر تھی،یہی ان کی گفتگو اور اسی کا شب وروز ملنے جلنے والون سے اعلان و اظہار۔
تبلیغی جماعت کا طریقۂ کار: ہم اختصار کے ساتھ تبلیغی جماعت کے طریقہ کار پر گفتگو کریں گے جس کو علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے بیان کیا ہے۔انبیاء کی دعوت کے انہوں نے آٹھ اصول بیان کئے ہیں ۔
۱۔ سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ انبیاء کرام اپنے کام کی اجرت ومزدوری کسی مخلوق سے نہیں چاہتے۔
۲۔ان کی تبلیغ ودعوت کا دوسرا محرک بندگان ِ الہی پر رحمت وشفقت اور خیر خواہی کا جذبہ ہے۔بندوں کی تباہی دیکھ کر ان کا دل کڑھتا ہے،اور دل یہی چاہتا ہے کہ کسی طرح وہ سدھر جائے۔
۳۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ نرمی،سہولت،آہستگی،تدریج،دانشمندی اور حکمت کے ساتھ بات پیش کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے تاکہ سامنے والے پر اثر انداز ہو جائے۔
۴۔دعوت کے اصول میں الاھم فالاھم کی ترتیب مدِ نظر ہو۔جیسے اللہ کے رسول ﷺ نے جب تبلیغ شروع کی تو توحید و رسالت وآخرت پر توجہ مرکوز کی۔
۵۔داعی کو اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ لوگ ہماری خدمت میں آکر ہماری دعوت سے مانوس ہوجائیں بلکہ آپ داعی ہیں تو آپ لوگوں کے پاس خود پہنچ کر اپنے دعوت کے فریضہ کو انجام دینا چاہئے۔
۶۔ اسی طرح دین کی طلب اور تبلیغ کے لیے ترک ِ وطن کرکے ایسے مقامات جانا چاہئے جہاں دین حاصل ہوسکے،پھر وہاں سے لوٹ کر اپنے وطن میں آکر اپنے قبیلوں اور ہم قوموں کو مستفید کرنا۔
۷۔آں حضرت ﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی کے چبوترہ پر اصحاب صفہ کا حلقہ تھا،جن کا کہیں گھر نہیں تھا،وہ رات کو کسی کے پاس دین کا علم سیکھتے اور ضرورت کے وقت مختلف مقاموں میں بھی مبلغ بنا کر بھیجے جاتے۔
۸۔تعلیم کا طریقہ زیادہ تر فیض ِصحبت،زبانی تعلیم واحکام ومسائل کا ذکر اور مذاکرہ اور ایک دوسرے سے سیکھنا اور بتانا تھا۔
مولانا الیاس ؒ نے دین کی دعوت اور تبلیغ کے لیے محنت اور جد وجہد،گشت،اور سفر کا طریقہ اختیا ر کیا۔لوگ عام طور سے دنیوی مشاغل میں
پھنس کر دین سیکھنے اور حاصل کرنے کے لیے وقت نہیں نکال پاتے اس لئے مولانا نے ایسی پالیسی بنائی کہ ترک وطن اور غربت اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے تاکہ کچھ مدت میں دین کی بنیادی باتیں سیکھ سکیں اور اہل ِ علم سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مولانا خود اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہے: ہم نے جماعتیں بنا کر دین کی باتوں کے لیے نکلنا چھوڑدیا،حالانکہ یہی بنیادی اصل تھی۔حضورﷺ خود پھرا کرتے تھے اور جس نے ہاتھ میں ہاتھ دیا وہ بھی مجنونانہ پھرا کرتا تھا غرض پھرنا اور دین کے لیے جدو جہد اور نقل و حرکت میں رہنا اصل تھا جب یہ چھوٹ گیا تب ہی خلافت ختم ہوگئی۔ تو اس کے لیے انہوں نے چھ اصولوں کو اپنایا۔
۱) کلمہ شہادت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تکمیل یعنی اللہ کی عبادت کی جائے اور رسول کے لائے ہوئے تمام اوامر و احکام،تمام عبادتوں،طاعتوں اور ثواب کے کاموں کو مضبوطی سے تھاما جائے۔
۲) نماز کی تصحیح و ترقی: کلمہ کے بعد سب سے بنیادی رکن نماز ہے،اس لیے کو شش کی جائے کہ ہماری نماز خشوع و خضوع کی نماز ہو،نماز ایسی ہو جو قرآن میں کہی گئی ہو،ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر جو نماز فحش اور منکر سے نہیں روکتی ا ن نمازوں میں خشوع اور خضوع نہیں ہوتا۔
۳) علم وذکر: یعنی ضروری علم کو حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا،ذکر کے لفظ کا مطلب یہی ہے کہ علم پر عمل کرنا ذکر ہے اور عمل کے بغیر علم اعراض اور نسیان ہے۔اس علم سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو،اور اس دعا سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے جس کو قبول نہ کیا جائے۔
۴) اکرام ِ مسلم: یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ان کے کام کو اپنا کام سمجھنا اور انکی تکلیف کو اپنا درد سمجھ کر ان کا تعاون کرنا،ہر ایک ساتھ اچھائی سے پیش آنا، ان کے جان و مال آبرو کی حفاظت کرنا۔
۵) اصلاح ِ نیت: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے تمام کاموں میں اللہ کی رضا کا طالب ہو یہی اخلاص ہے۔
۶) دعوت و تبلیغ: ان تما م کاموں کی انجام دہی کے لیے اللہ کے راستہ میں نکلنا اور لوگوں کو قرآن و سنت کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دی جائے تاکہ دونوں جہاں کی کامیابی حاصل ہو جائے۔
مولانا الیاس ؒ نے اس دعوت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوے یوں اظہار خیال کیا ہے: آدمی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے مشکلات برداشت کرتا ہے۔اللہ کے لیے ذلتیں بھی برداشت کرتا ہے ایسے لوگوں میں صبر کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت خاص طور سے متوجہ ہو جاتی ہے۔ مزید ارشاد فرمایا ”صرف کلمہ اور تسبیح سے امت نہیں بنے گی،امت معاملات اور معاشرت کی اصلاح سے اور سب کا حق ادا کرنے اور سب کا اکرام کرنے سے بنے گی،بلکہ جب بنے گی تب دوسروں کے لیے اپنا حق اور اپنا مفاد قربان کیا جائے،حضورﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے اپنا سب کچھ قربان کرکے اور اپنے پر تکلیفیں جھیل کے اس امت کو امت بنایا“۔
مولانا اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اصل اہمیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ہے اگر اس پر توجہ نہ دی جائے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کو مرکزی اہمیت حاصل نہ ہو تو دین مضمحل ہوجائے گا۔عبادتیں نا قابل ِ قبول قرار پائیں گی اور دین کی شاخیں اورپتیاں مر جھا جائیں گی۔
میرے حضرت! ”یہ وظیفہ و ظائف اور یہ اللہ کی بارگاہ میں دعائیں اور دین لائن کی ہر چیز درحقیقت ایمان کی پگڈنڈیاں اور اس کے پھول پتے ہیں جونسا درخت اپنی جڑ سے سوکھ چکا ہو،اس کے پھول پتیوں میں شادابی کہاں سے ہوسکتی ہے،اس واسطے بندۂ ناچیز کے نزدیک اس زمانہ میں نہ دعا کار گر ہے نہ و ظیفہ بار آور ہے اور نہ کسی کی طرف توجہ اور ہمت کار آمد ہے۔حدیث شریف میں ہے جس وقت دین کے فروغ کی کوشش ترک ہوچکی ہوگی جس کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں اس وقت دعاؤں میں راتیں رو ک کرگزارنے والوں کی دعا مقبول نہیں ہوگی۔ابواب ِ رحمت بند ہوچکے ہونگے ابواب ِ رحمت کُھلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی،مسلم کا فروغ،اسلام کے فروغ کی کوشش میں لگنے اندر کے علاوہ ہر گز متصور نہیں،حق عزوجل نے مومن کے ساتھ رحمت کے ساتھ توجہ کرنے اور کرم و الطاف کے ساتھ برتاؤ کرنے کا ارادہ صرف اسی وقت فرما رکھا ہے جب وہ اسلام کے فروغ میں ہو،اسلام کے فروغ میں اپنی سعی مصروف کررہا ہو“
طریقہ کار کی تعین کی بعد انہوں نے اسے نافذ کرنے اور نظریاتی علم کو عملی شکل دینے کے لیے جو طریقہ تلاش کیا وہ یہ ہے۔
۱۔ مسجد دعوت کا سب سے پہلا مرکز: اپنی دعوت وتبلیغ کی محنت کے لیے مسجد کو مرکز بنایا گیا،جماعت مسجد ہی سے نکلتی ہے اور مسجد ہی سے واپس ہوتی ہے،اسلام میں مساجد نو ر کے مراکز ہیں کیوں کہ ان ہی میں علم سکھایا جاتا ہے،نماز،ذکر،دعا،کتاب اللہ کی تلاوت جیسی عبادتوں سے روح کا تزکیہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح سے مسجد میں وہ مختلف ذمہ داریوں کو آپس میں بانٹھ کر کام کرتے ہیں،جیسے کھانا لانا ،پکانا وغیرہ کی ذمہ داری کسی دو تین افراد کے سپرد کی جاتی ہے،۲کسی ذمہ دار سے ملاقات کراکے دعوت کے اصول کو سمجھایا جاتا ہے۔ ۳ کسی نماز کے بعد جماعت کا تعارف ومقصد لوگوں کے سامنے بیان کیا جاتا ہے۔۴عصر یا عموماً مغرب کے بعد مختصر تذکیر کے بعد لوگ گشت وغیرہ کے لیے نکلتے ہیں اور بازاروں،دوکانوں محلوں میں لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور عمومی بات میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔
۲۔ گشت کا انتظام: اسی طرح تبلیغی جماعت میں طریق دعوت میں گشت بھی ہے۔گشت کے لیے امیر،رہبر اور متکلم متعین کرتے ہیں،ایک آدمی اپنی دعوت و تبلیغ ہی کے لئے کئے جانے والی کوششوں کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے اور چند لوگ مسجد میں آنے والوں کے استقبال میں رہتے ہیں۔مغرب یا عشاء بعد ایک عمومی بیان ہوتا ہے جس میں لوگوں کو دعوت و تبلیغ میں نکلنے کے لیے ابھارا جاتا ہے۔ فجر کے بعد ایک عمومی مذاکرہ ہوتا ہے وہ ہے سورۃ الفیل سے سورۃ الناس تک، ان دس سورتوں کو کم سے کم یاد کرانا ضرروی سمجھتے ہیں۔ صلوۃ الضحی کے وقت سب چاشت کی نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔
۳۔بعض امور کی پابندی: تبلیغی جماعت میں نکلنے والے ہر فرد کے لیے مخصوص امور کی پابندی اورالتزام ضروری ہے جس سے خود فرد کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور دوسروں کو بھی وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔امیر کی اطاعت،اجتماعی کاموں میں شرکت،صبر وتحمل،مسجد کی صفائی
چار کاموں میں مشغولیت: دعوت،عبادت،تعلیمی حلقہ،خدمت یعنی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ تعاون وغیرہ وغیرہ۔
مولانا الیاسؒ نے ایک مرتبہ فرمایا:”ہماری اس تحریک کا اصل مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو جمیع ما جاء بہ النبی سکھانا (یعنی اسلام کے مکمل نظام سے امت مسلمہ کو وابستہ کرنا) یہ تو ہے ہمارا مقصد،رہی قافلوں کی چلت پھرت،اور تبلیغی گشت سو یہ سعی مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تعلیم وتلقین گویا ہمارے نصاب کی الف،ب،ت ہے“۔
ایک مرتبہ فرمایا: ہمای اس تحریک کا اصل مقصد اس وقت بس دین کی طلب وقدر پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے،نہ کہ صرف کلمہ ونماز کی وغیرہ کی تصیح و تلقین۔
تبلیغی جماعت کے عالمی اثرات: یقینا اس تحریک کے عالمی اثرات ہیں جس پر تفصیل سے لکھا جاسکتا ہے میں یہاں پر صرف دو اقتباسات پیش کرونگا اس سے آپ اس تحریک کے عالمی اثرات کو سمجھ سکتے ہیں۔
مفکر اسلام اور اسلامی دنیا کے نامور محقق جناب ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒ نے لکھا ہے”مجھے اور ممالک کا علم نہیں لیکن شہر پیرس کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ بیس سال سے یہ جماعتیں یہاں آنے لگی ہیں،اور میں نے اس کے اچھے نتائج دیکھے ہیں،اب سے بیس سال پہلے پیرس شہر کے مسلمانوں میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد ہزار میں ایک تھی تو اب میں کہہ سکتا ہوں کہ کچھ نہیں تو سو میں پچاس ہو گئی ہے یعنی پچاس فیصد لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں،یہ تبلیغی جماعت کی کوششوں کا نتیجہ ہے،اس کا ایک ثبو ت یہ بھی ہے کہ۱۹۴۲ ء سے پیرس میں ایک عظیم الشان مسجد ہے لیکن ان گزشتہ بارہ سال سے یہ مسجد نا کافی ثابت ہورہی ہے،چنانچہ شہر میں روز بروز نئی مسجدیں بننے لگی ہیں،یا کوئی عمارت کرائے پر لے کر اس سے مسجد کا کام لیا جاتا ہے یا خود عیسائیوں کی طرف سے فروخت کئے جانے والے گِرجا گھروں کو خرید کر مسجدوں میں بدلا جارہا ہے،نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت میرے علم میں شہر پیرس اور اس کے مضافات میں اسی (۰۸) سے زائد مساجد ہیں“۔
مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒ نے ان الفاظ میں مولانا الیاسؒ اور ان کی تحریکی خدمات کا تذکرہ کیا ہے ”حقیقتاً اس نوعیت کی تحریک ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں یا تو حضرت شیخ مجدد سرہندی ؒ نے اٹھائی تھی یا حضرت سید احمد بریلوی ؒ نے اس کا احیاء کیا،یا اب مولانا الیاس کو اللہ تعالی نے تازہ کرنے کی توفیق بخشی“۔
عام طورپر تبلیغی جماعت کو لےکر کافی کڑوی کسیلی باتیں کہی جاتی ہیں۔ دراصل دینی جذبے سے خالی اوردینی کاموں سے واقفیت نہیں رکھتے یاپھر دین کے کام کو بوجھ سمجھتے ہیں وہ کسی نہ کسی بہانے تنقید کا سہارا لے کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔انہیں چاہئیے کہ وہ قریب، دور دراز کے دیہاتوں اور مقامات پر جا کر دیکھیں ، جو مسجدیں ویران تھیں ،جو لوگ کلمہ ، نماز سے بے بہرہ تھے وہی آج ان مسجدوں کو آباد رکھے ہوئے ہیں اور ان کی زندگیوں میں اسلامی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔تنقید کے بجائے دست تعاون کی کوشش کریں تو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوگا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مل جل کر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اتحاد و اتفاق سے دینی کاموں کو انجام دینے کی توفیق نصیب فرمائے اور حالات کو سمجھ کر حکمت کے ساتھ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے میں کامیابی عطا کرے۔ آمین
(اس کالم میں شائع مضامین کا ادارے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)