مدارس اسلامیہ دین کے محفوظ قلعے ہیں۔ ان کی حفاظت اور استقامت میں دین کا استحکام مضمر ہے۔ صفہ اسلام کا پہلا مدرسہ ہے جس کو ہمارے آقائے مدنی ﷺ نے قائم فرمایا اور اصحاب صفہ اس کے پہلے طالب علم تھے اور حضور پاک ﷺ ان کے پہلے معلم ہیں۔ بمصداق انما بعثت معلما۔ انہیں اصحاب صفہ میں سے بہت سے فارغین کو آپؐ نے دین کی اشاعت وتبلیغ کے لئے دور دراز علاقوں میں بھیجا اور انہیں ازواج مقدمہ سے علوم دینیہ سر زمین عرب سے بیرون ممالک میں پہنچے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلاف تک عرب، شام، روم اور فارس وغیرہ کے علاقے آپ کے زیر نگیں آچکے تھے۔ اسلامی فتوحات ملک گیری اور اس کی توسیع پسندی نہیں رہی ہے۔ اس کا اصل مقصد کلمۃ اللہ کی سر بلندی اور اس کی ترویج و اشاعت ہے۔ خلافت راشدہ میں ہی کئی ممالک میں اسلامی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ اپنے وقت کے جید علماء کرام اس میں مقرر ہوئے جن کی کفالت بیت المال سے کی جاتی تھی۔ اگرچہ آج کی طرح ان مراکز ومدارس کی شکل اور نوعیت نہیں تھی لیکن دین کی اشاعت کے لئے یہی اہم ادارے تھے۔ ساتویں آٹھویں صدی ہجرت تک بغداد، سمرقند، بخارا، شیراز، اصفہان وغیرہ بڑے بڑے دینی ادارے قائم ہوچکے تھے۔ جہاں سے بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے نہ صرف علوم وفنون کو حاصل کئے بلکہ علوم اسلامیہ پر بیش بہا کتابیں بھی تصنیف کیں جو آج بھی ہماری درس گاہوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ اس سے قبل دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کے آغاز میں ہی قرآنی شروحات اور تفاسیر، حدیث کی ترتیب وتدوین ہو کر صحاح وسنن ہمارے سامنے آچکے تھے۔ فقہ مدون ومرتب ہوکر ممالک اسلامیہ میں مروج ومقبول ہوچکے تھے۔ انہیں مدارس اسلامیہ کے فارغین حضرات میں امام ابو حنیفہ ؒ ، امام ابو یوسفؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ امام بخاریؒ ، امام مسلمؒ ، امام ترمذیؒ ، امام بیضاویؒ ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ ، علامہ ابن تیمیہؒ ، علامہ امام ابن قیمؒ اور علامہ امام غزالیؒ وغیرہ جیسی عظیم المرتبت ہستیاں پیدا ہوئیں جن کی دینی وعلمی خدمات ہمارے لئے سرمایۂ افتخار ہیں۔
بر صغیر میں ہندوستان کو ۱۱۹۸ء میں شہاب الدین غوری نے فتح کیا اور اپنے غلام قطب الدین ایبک کو یہاں حکمراں بناکر واپس ہوگئے۔ حالانکہ اس سے قبل ساتویں صدی ہجری کے اواخر میں محمد بن قاسم سندھ کو فتح کر کے یہاں اسلامی تعلیم کی بنیاد رکھی تھی لیکن وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اسی طرح دسویں صدی عیسوی کے آخر میں محمود غزنوی نے سر زمین ہند میں اپنی حکومت قائم کی اور لاہور تک اس کو وسعت دی۔ لیکن ہندوستان میں غلام سلطنت کے بعد اسلامی حکوت کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔ جیسے خلجی خاندان، تغلق خاندان، لودھی خاندان اور مغلیہ خاندان جس کا آخری حکمراں بہادر شاہ ظفر تھا جن کو ۱۸۵۷ ء کے غدر میں انگریزوں نے گرفتار کر کے رنگون میں قید کردیا۔ اس مدت میں ہندوستان میں بے شمار دینی مدارس قائم ہوئے۔ جہاں سے مشاہیر علما، صلحا، مبلغین اور فقہا پیدا ہوئے جن کی صدائے باز گشت آج بھی ہم سنتے ہیں۔ جنہوں نے جابر حکمرانوں کے پنجے مڑوڑ دیئے اور اسلام کی بالا دستی کو قائم کیا۔ جب شہنشاہ اکبر نے دین الٰہی کو قائم کر کے دین میں فتنے کے دروازے کھولے تو اس کے لئے حضرت محمد الف ثانی سرہندیؒ اور ان کے صاحبزادے حضرت خواجہ معصومؒ میدان میں آئے اور اس فتنہ وشر کو دبایا۔ دین حق کی اشاعت اور اس کی سر بلندی کے لئے اسحاق محدث دہلویؒ ، نور الحق محدث دہلویؒ ، مولانا شاہ عبد الرحیم دہلویؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبد العزیز دہلوی، شاہ عبد القادر دہلوی، شاہ رفیع الدین دہلوی، شاہ عبد الغنی دہلوی، شاہ اسمٰعیل شہید دہلوی، شاہ عبد العزیز دہلوی وغیرہ جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں صرف سر زمین دہلی میں پیدا ہوئیں۔ جن کے کارنامے اسلامی تاریخ ہند کے روشن باب ہیں۔
۱۸۵۷ ء کے غدر نے ہندوستان کی چولیں ہلادیں۔ پرانی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور پورا ہندوستان انگریز کا غلام ہوگیا۔ انگریزی حکومت نے چن چن کر مسلمانوں سے بدلہ لیا۔ بڑے بڑے علما شہید کردیئے گئے۔ مدارس ومکاتب کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ تاریک دور تھا۔ اس تباہی وبربادی کا اندازہ اس سے کیجئے کہ صرف دہلی اور اس کے اطراف میں اٹھارہ ہزار سے زائد علمائے کرام دار پر لٹکا دیئے گئے۔ ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ دہلی سے پشاور تک جانے والی سڑک کے دونوں کنارے کوئی ایسا پیڑ نہیں تھا جن پر مسلم علماء کی لاش لٹکی ہوئی نہ ہو۔ اس وقت ہندوستان میں کوئی قابل ذکر ادارہ نہیں تھا۔ ابھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وجود میں نہیں آئی تھی اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ہی قیام عمل میں آیا تھا۔ انگریزی حکمرانوں کی سازش تھی کہ مسلمانوں کو ان کے دین متین سے دور کردیا جائے اور ان کی تعلیمات کو محو کردیا جائے۔ ہندوستانیوں کے ذہن وفکر کو اس قدر مسخ کردیا جائے کہ وہ شکل و صورت سے بھلے ہی ہندوستانی نظر آئیں لیکن فکری اعتبار سے وہ انگریز ہوں۔ اس وقت پورا ہندوستان خوف وہراس اور مایوسی کا شکار تھا۔ انہیں حالات میں حجۃ الاسلام علامہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دین کی حفاظت اور اس کی استقامت کے لئے ۱۸۶۶ ء میں دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ ۱۸۵۷ ء کے بعد بر صغیر میں علوم دینیہ کی نشأۃ ثانیۃ اور دینی تحریک کا یہ نقطۂ آغاز تھا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دار العلوم دیوبند ایک مدرسہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ یہیں سے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع عثمانیؒ ، مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، مولانا سید اسعد مدنی وغیرہ جیسے عباقرہ پیدا ہوئے اور پھر فارغین علماء کرام نے پورے ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کے جال پھیلادئے۔ جنہوں نے انگریزی حکمرانوں کے فتنہ وشر کے رخ کو موڑ دیا اور انہیں جیالوں نے ہندوستان میں جابر وظالم انگریز حکمراں کے دانٹ کھٹے کردئے تحریک آزادی ہند کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
آج متحدہ ہندوستان میں مغرب سے لے کر مشرق تک اور شمال سے جنوب تک دینی ادارے جہاں بھی اور جس سطح پر بھی ہیں وہ سب اسی دینی مرکزی ادارہ کے فیض سے جاری وساری ہیں۔ خواہ کوئی اس کا اعتراف کرے نہ کرے لیکن تاریخ یہی ہے کہ وہ سب اسی ادارہ کے براہ راست یا بالواسطہ فیض یافتہ ہیں۔
ہندوستان کے تناظر میں آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں ان کے اسباب وعلل پر غور کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ماضی سے ہمارا رشتہ ٹوٹ سا گیا ہے اور ہم نے اپنے اسباق کو فراموش کردیا ہے۔ اس لئے ہم اساتذہ کرام کو چاہئے کہ ہم اپنے اسلام کی فکر ونظر کو سمجھیں اور ان کے طریق کار کو اپنائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو بطور چیلنج قبول کریں۔ طلبۂ مدارس اپنے اندر اسلام کے قلب ونظر پیدا کریں۔ آپ ملت اسلامیہ کے نگہبان اور مستقبل کے پاسبان ہیں۔ آپ کا رشتہ ایک طرف حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات سے آراستہ ہے تو دوسری طرف اصحاب صفہ سے پیوستہ ہے۔ اسی میں ہماری کامیابی اور فلاح ہے۔