(آپ کریں تو آستھا ہم کریں تو انتشار مرض)
دنیا میں جب سے کورونا وائرس جیسی مہلک وبا نے دستک دی ، تبھی سے ہر حکومت اور ہر ملک کا وزیراعظم بلا امتیاز مذہب و ملت ہر شہری کی حفاظت و صیانت اور تحفظ و بقا کے حوالے سےکافی فکرمند اور کشمکش میں ہے ، اور یہ ہر حکومت کے لیے ضروری بھی ہے، کیونکہ ملک کا ہر شہری حکومت کی کرسی کے پائے کے مانند ہوتا ہے ، جب شہری ہی نہیں بچیں گے تو حکومت کس کام کی، لیکن دنیا بھر میں گنگا جمنی تہذیب سے متعارف ملک ہندوستان میں مسلسل مذہبی بھید بھاؤ کو ہوا دی جا رہی ہے ، اسلام اور مسلم منافرت کو سامنے رکھ کر موجودہ حکومت یکے بعد دیگرے سیاسی ہتھکنڈے اپنا رہی ہے، کون نہیں جانتا کہ کورونا کے آغاز میں کس طرح موجودہ حکومت نے میڈیا کی مدد سے مسلمانوں پر مرض پھیلانے کا جھوٹا الزام عائد کیا، جس جھوٹے الزام نے بھارت میں جمہوریت کا گلہ گھونٹتے ہوئے اس ملک کے لوگوں میں باہم مخالفت مخاصمت اور نفرت و دشمنی کی ایک دیوار کھڑی کر دی تھی جو کہ ایک جمہوری ملک کے منہ پر زور دار طمانچے کے مانند تھا،
واضح ہو کہ کورونا کے باعث لاک ڈاؤن 4 ماہ کی طویل مدت کو تجاوز کرتا ہوا نظر آرہا ہے بشمول کاروبار کے تمام مذہبی مقامات میں گنے چنے لوگوں ہی کو جانے کی اجازت ہے جس کی وجہ سے مسلمان رمضان المبارک جیسے عظیم مہینے میں تراویح اور عید الفطر کے دن نماز کی برکت سے محروم رہے ، اور اب عید الاضحیٰ کے مبارک ایام ہمارے سامنے ہیں ، حکومت کے مطابق کرونا مریضوں کی شرح میں دن بدن اضافہ کے باعث حسب سابق عیدالاضحیٰ کی نماز بھی عید گاہ میں صرف 5 لوگ ہی ادا کر سکتے ہیں، اور حکومت کے اس فیصلے پر کسی مسلم کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے ، کیونکہ حالات ہمارے سامنے ہیں، لیکن پانچ اگست کو اجودھیا میں رام مندر کی سنگ بنیاد کے لیے حکومت کا اجازت دے دینا ، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ مسلمانوں کے تئیں حکومتوں کا یہ دوسرا نظریہ کیوں ؟
ہم اگر عیدالاضحیٰ کے دن 1 اگست کو پندرہ یا بیس منٹ کے لیے عید گاہ میں جمع ہوں تو حکومت کو اس سے کورونا پھیلنے کا خدشہ نظر آ رہا ہے ، لیکن اسی کے چار روز بعد پانچ اگست کو وزیراعظم ، تمام صوبے کے وزیر اعلٰی اور ایک جم غفیرکی موجودگی میں تین گھنٹہ کے لیے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے جمع ہوں گے لیکن اس سے کوئی اعتراض نہیں ایسا کیوں ؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے جمہوری قانون کہا جائے یا کچھ اور ؟ آخر ہمارے ساتھ حکومت یہ سوتیلا پن کیوں کر رہی ہے؟ ہمارے ساتھ یہ ناروا سلوک کب تک کیا جائے گا؟ ابھی حال ہی میں مرادآباد سے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمان برق نے یوپی حکومت سے عید الاضحیٰ کی نماز کی اجازت کے لیے مطالبہ کیا کہ حکومت ہمیں سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ عید الأضحی کی نماز پڑھنے دے، ہو سکتا ہے اجتماعی دعا سے کورونا ختم ہو جائے، ان کے اس بیان پر ملک کے کونے کونے سے بعض انتہا پسندوں کی جانب سے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ لگتا ہے برق صاحب کو لوگوں کی جان پیاری نہیں ہے، اس لیے وہ ایسی اناپ شناپ باتیں کر رہے ہیں، پھر برق صاحب کے اس مطالبے پر ایک ٹی وی ڈبیٹ بھی ہوئی ، جس میں کھل کر ان کے مطالبہ کو لوگوں کے لیے خطرہ بتایا گیا،
لیکن رپورٹ کے مطابق مدھ پردیش ودھان سبھا کے اسپیکر اور بھاجپا نیتا رامیشور شرما نے 5 اگست کو ہونے والے رام مندر سنگ بنیاد کے متعلق کہا کہ بھگوان رام کے مندر کی بنیاد رکھتے ہی بھارت سے کرونا کا خاتمہ ہو نا شروع ہو جائےگا،ایسا لگتا ہے کہ یہ سب منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے، اس کے علاوہ چند اور بڑے سادھوؤں نے بھی ایسا ہی دعویٰ کیا ہے، اور آستھا کی بنیاد پر ان کے اس دعوی کو خوب سراہا جا رہا ہے.
بڑی دلچسپ بات ہے کہ شفیق الرحمان برق کے مذکورہ مطالبہ کو انسانیت کے خلاف بتایا جارہا ہے لیکن کرونا کے خاتمے کا دعوے کرنے والے حضرات کو خوب سراہا جا رہا ہے ، تعجب ہے! آپ کریں تو آستھا اور ہم کریں تو انتشار مرض کا باعث، یہ کیسا قضیہ ہے؟
محترم قارئین!
ان سب کے ذریعے وطن عزیز کس راستے پر گامزن ہے یہ بتانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، موجودہ حکومت مسلسل مذہبی بھید بھاؤ اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازانہ سلوک کرکے آخر کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟ حکومت کے اس رویہ کو دیکھ آئین ہند کے آرٹیکل 14 جو کہ ہر ایک طبقہ کو مساوات و برابری فراہم کرتا ہے سر عام اس کی پامالی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ بھارت سے محبت کرنے والا یہاں کے آئین پر دل و جان قربان کرنے والا ہرشخص خواہ وہ کسی بھی ذات اور دھرم کا ہو، حکومت کے اس دوہرے نظریہ کے خلاف ہے۔
اللہ وطن عزیز کو تمام تر فتنوں سے محفوظ و مامون فرمائے ، ہماری اور ہمارے ایمان وایقان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
اسلامک اسکالر : جامعة البركات علی گڑھ۔
مسکن لکھن پوروا رودھولی بازار ضلع بستی یوپی الہند۔