جنگ آزادی میں علمائےکرام کی سرگرمیاں
اس وقت وطن عزیز ہندوستان میں 75/ واں یومِ آزادی بڑی تزک واحتشام کے ساتھ منایا جارہا ہے- لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ آج کے دن لوگ تحریک آزادی میں پسینہ بہانے والوں کو تو خوب یاد کرتے ہیں لیکن خون بہانے والوں کو فراموش کر دیا جاتاہے، یہ ایک مسلم الثبوت اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی علمائے کرام ہی کے دم قدم سے متصور ہے- آج ہم آزادی کی جس خوشگوار فضا میں زندگی کے لمحات بسر کر رہے ہیں یہ علمائے حق ہی کے سرفروشانہ جذبات اور مجاہدانہ کردار کا ثمرہ ہے- انہیں کے مقدس لہو سے شجر آزادی کی آبیاری و آبپاشی ہوئی ہے، اگر انہوں نے بروقت حالات کے طوفانی رخ کا تدارک نہ کیا ہوتا تو آج مسلمان یہاں کس حال میں ہوتے وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے- مگر اندازہ یہ لگایا جاتاہے کہ اولاً ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ہی نہ ہوتا اور اگر ہوتا بھی تو ان کے اندر اسلامی روح، ایمانی جذبہ اور دینی غیرت و حمیت مفقود ہوتی-
جنگ آزادی کے چند نامور قائدین :
مفتی عنایت احمد کاکوروی:
آپ ٩/ شوال المکرم ١٢٢٨/ہجری مطابق ٥/اکتوبر ١٨١٣/ عیسوی کو مقام دیوی میں پیدا ہوئے- تحصیل علم کے لئے رامپور تشریف لے گئے- پھر علی گڑھ جاکر منقول و معقول کی سند حاصل کی، مولانا بزرگ علی مارہروی سے ریاض پڑھی- علی گڑھ ہی میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی اور مفتی و منصف کے عہدے پر فائز ہوئے- ایک سال کے بعد بریلی شریف تبادلہ ہوگیا- اسی دوران میں ١٨٥٧/ عیسوی کی آزادی کے شعلے بھڑکنے لگے آپ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا- بریلی شریف کے انقلابی گروہ کی مشاورتی مجالس میں برابر شریک ہوتے رہے- نواب خان بہادر کی قیادت میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے – اس وقت بریلی شریف مجاہدینِ آزادی کا مرکز تھا- یہاں مجاہدین آزادی کی ہر قسم کی امداد و اعانت مولانا رضا علی خان اور مولانا نقی علی خان فرما رہے تھے- آپ نے ان کے ساتھ مل کر بڑی خدمات سر انجام دیں- جب جنرل بخت خان بریلی شریف پہنچے تو مفتی عنایت احمد کاکوروی صاحب آپ کے ساتھ ہوگئے- جب یہ لشکر رام پور پہنچا تو مفتی عنایت احمد کاکوروی صاحب اس کے ساتھ ہی تھے- وائی رام پور نے جب مجاہدین آزادی کی اعانت سے انکار کیا اور جنرل بخت نے اس کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو مفتی عنایت احمد کاکوروی صاحب نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا- جنرل بخت نے وائی رام پور سے صلح کرلی تو اس وقت مفتی عنایت احمد کاکوروی مولانا سرفراز علی کے مشورے سے واپس بریلی شریف آئے- خان بہادر کی مجلس مشاورت کے علاوہ میدان کارزار میں بھی شریک رہے- لیکن آخر کار انگریزی تسلط قائم ہوگیا- مفتی عنایت احمد کاکوروی صاحب بھی گرفتار کر لیے گیے اور ١٨٥٨/ عیسوی میں کالا پانی روانہ کر دیے گیے -وہاں پہلے حضرتِ مولانا فضل حق خیرآبادی اور مولانا مفتی مظہر کریم دریابادی موجود تھے- آپ سختیوں کے باوجود بھی تصنیف وتالیف میں مشغول رہے- اسیری کے دوران میں ،،تقویم البلدان،، کا ترجمہ کیا اور آپ نے قرآن مجید حفظ کیا- اور سیرت مصطفٰی صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر مشہور کتاب ،، تواریخ حبیب الہ،، لکھ ڈالی- اور یہ کارنامہ آپ نے اس حالت میں انجا دیا کہ مطالعہ کے لئے دوسری کتابیں موجود نہ تھیں-
١٢٧٧/ہجری میں حافظ وزیر علی داروغہ کی کوششوں سے رہائی پائی- کاکوری میں مختصر قیام کر کے کانپور آئے اور مدرسہ فیض عام قائم کیا- مولانا لطف الله علی گڑھ اس مدرسے کے پہلے فارغ ہونے والے عالم دین تھے- ١٢٧٩/ہجری میں زیارتِ بیت الله شریف کے لئے روانہ ہوئے- ١٧/شوال المکرم ١٣٧٩/ہجری کو مطابق اپریل ١٨٦٣/عیسوی جہاز سمندر میں پہاڑ سے ٹکراکر ڈوب گیا مفتی عنایت احمد کاکوروی بہ حالت احرام خدا کو پیارے ہوگئے- آپ کی تصنیفات ٢٠/ سے زائد ہیں-
مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی:
مفتی صدر الدین صاحب کے آباء واجداد کشمیر کے رہنے والے تھے- آپ دہلی میں ١٩٠٤/ہجری مطابق ١٧٧٩/عیسوی کو پیدا ہوئے- علوم کی تکمیل و تحصیل شاہ عبد العزیز، شاہ عبد القادر، اور شاہ محمد اسحاق سے کی اور علوم عقلیہ علامہ فضل امام صاحب خیرآبادی سے حاصل کئے- آپ بڑے پائے کے عام دین، ادیب اور شاعر تھے- اُردو، فارسی، عربی تینوں زبانوں کے فاضل اور دہلی کے روئوسا میں سے تھے- دہلی میں آپ صدر الصدور کے عہدے پر فائز رہے- جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو علمائے اہلسنت نے جو فتویٰ دیا اس پر آپ نے بھی دستخط کئے تھے اور اس کی تشہیر میں بھی نمایاں حصہ لیا تھا- اس جرم کی پاداش میں آپ کو گرفتار کر لیا گیا- چند ماہ بعد خود تو رہا ہو گئے- مگر جائداد نیلام ہو گئی- صرف نیلام شدہ کتب خانہ کی قیمت مالیت تین لاکھ روپے تھی اس کے حصول کے لئے بڑی دوڑ بھاگ کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا- آپ دوسال فالج میں مبتلاء رہنے کے بعد ٨١/سال کی عمر میں ٢٤/ ربیع الاوّل ١٢٨٥/ہجری مطابق ١٨٥٨/عیسوی میں اس عالمِ فانی سے تشریف لے گئے-
علامہ فضلِ حق خیرآبادی:
آپ جنگ آزادی کے سب سے عظیم ہیرو ہیں- انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں آپ باغی قرار دئے گئے- ١٨٥٩/ عیسوی میں لکھنؤ میں مقدمہ چلا آپ کی شہرت و مقبولیت کے پیشِ نظر امید یہی تھی کہ بری کردیے جائیں گے- مگر آپ نے اپنی جان کی پروہ کئے بغیر بھرے مجمع میں١٨٥٧/ عیسوی کی جنگ میں شرکت کا اعتراف کیا- جس کی وجہ آپ کی رہائی منسوخ ہوگئی اور آپ کو کالا پانی روانہ کردیا گیا- جس دن آپ کے معتقدین رہائی کا پروانہ لے کر کالا پانی پہنچے اس دن آپ اس دنیا کو الوداع کہہ چکے تھے- حضرتِ علامہ فضلِ حق خیرآبادی، عمری، حنفی، ماتریدی، چشتی 1212/ ہجری مطابق 1797/ عیسوی میں پیدا ہوئے- اپنے والد گرامی مولوی فضل امام کے شاگرد تھے، آپ نے حدیث کی تعلیم مولانا عبد القادر دہلوی سے حاصل کی، قرآن مجید چار ماہ میں حفظ کرلیا، تیرہ سال کی عمر میں آپ فارغ التحصیل ہوگیے، آپ شاہ دھومن دہلوی کے مرید تھے، علم منطق، حکمت و فلسفہ، ادب، کلام، اصول اور شاعری میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز اور اعلیٰ قابلیت رکھتے تھے، آپ کی تصنیفات میں الحسن الغالی فی شرح الجواھر العالی، حاشیہ شرح مسلم قاضی مبارک، حاشیہ افق المبین، حاشیہ تلخیص الشفاء، الہدایتہ السعیدیہ ( حکمت طبعی) رسالہ تحقیق العلم و العلوم، الروض جیسی کتابیں ہیں- حضرتِ مولانا فضل حق خیرآبادی علوم معقول کے امام تھے، کمشنر دہلی کے دفتر میں پیش کار تھے- مولانا فضلِ حق خیرآبادی اور شاہ محمد اسماعیل دہلوی سے بعض اصولی مسائل میں اختلافات ہویے، طرفین سے رسائل لکھے گیے، آپ ایک عرصے تک رئیس جھنجھر، راجہ الور، نواب ٹوٹک اور ریاست رامپور میں ملازم رہے، اخیر میں واجد علی شاہ کے زمانے میں لکھنؤ میں رہے، جب ہنومان گڑھی کا واقعہ جہاد پیش آیا جس میں امیر الدین علی، امیر المجاہدین تھے، اس میں حسب روایت مولوی حکیم نجم الغنی) مؤلف تاریخ اودھ) مفتی سعد الله رامپوری اور مفتی محمد یوسف فرنگی محلی کے ساتھ مولانا فضلِ حق خیرآبادی نے بھی مولوی امیر الدین اور جہاد ہنومان گڑھی کے خلاف فتویٰ دیا، مگر کس کو معلوم تھا کہ مولانا فضلِ حق خیرآبادی 1857/ عیسوی میں اس کی پوری پوری تلافی کریں گے، جنگ آزادی 1857/ عیسوی میں مولانا فضل حق خیرآبادی نے مردانہ دار حصہ لیا، دہلی میں جنرل بخت خان کے شریک رہے- لکھنؤ میں حضرت محل کی کورٹ کے ممبر رہے، اخیر میں گرفتار ہوئے- مقدمہ چلا، بہ عبور دریائے شور کی سزا پائی- جزیرہ انڈمان بھیجے گیے اور وہیں 12/صفر المظفر 1278، ہجری/مطابق 1861/ عیسوی میں انتقال ہوا- جزیرہ انڈمان میں ہی آپ کا مزار مبارک ہے، مولانا فضلِ حق خیرآبادی نے تیں صاحب زادے، شمس العلماء، مولوی عبد الحئی، مولوی شمس الحق یاد گار چھوڑے-
مولانا کفایت علی کافی:
جن علمائے اہلسنت نے جنگ آزادی کی تاریخ اپنے خون سے رقم کی ان میں سے مولانا کفایت علی کافی قدر آور شخصیت ہیں- آپ کا نام کفایت علی، اور تخلص کافی ہے- مراد آباد کے ایک باعزت خاندان سادات کے چشم و چراغ تھے- علم حدیث، علم فقہ، اصول منطق، فلسفہ اور عروج و قوافی میں یگانہ روزگار تھے- مولانا کفایت علی کافی حضرتِ صدر الافاضل مولانا نعیم الدین صاحب مرادآبادی کے والد ماجد مولانا سید معین الدین نزہت کے ہم سبق تھے- جنگ آزادی ١٨٥٧/ عیسوی کے دوران آپ نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد دیا- جنرل بخت روہیلہ کی فوج میں کمانڈر ہوکر دہلی آئے اور اپنی بہادری کے جوہر دکھائے- دشمن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا- بہادر شاہ ظفر نے کئی بار آپ کو بلا کر مشورے لیے- دہلی میں جب نظام درہم برہم ہوا تو جنرل بخت کے ہمراہ بریلوی شریف پہنچے- یہاں مولوی احمد الله شاہ مدراسی بھی تھے- ان کی معیت میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے- آخر کار مولوی احمد الله شاہ مدراسی صاحب اور جنرل بخت کے ہمراہ مراد آباد پہنچے- یہاں آپ کو صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ نے شرعی احکام جاری کیے- آخر میں انگریزوں نے گرفتار کر لیا- جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی- زخموں پر مرچیں چھڑکیں گئیں- غرض یہ کہ اپنے مقصد سے برگشتہ کرنے کے لئے ہر حربہ انگریزوں نے استعمال کیا، مگر ظلم کا کوئی تیر بھی اس مرد مجاہد کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکا- جب انگریز بالکل مایوس ہو گئے تو چوک مرادآباد میں بر سرِ عام اس عاشقِ رسول کو سولی پر لٹکا دیا گیا یہ واقعہ ٣٠/ اپریل١٨٥٨/ عیسوی کو پیش آیا-
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!!
کئ کتابیں آپ کی یادگار ہیں: شمائل ترمذی کا منظوم ترجمہ: خیابانِ فردوس: نسیمِ جنت: دیوان کافی: وغیرہ خاص طور پر یہ قابلِ ذکر ہے کہ سیدی سرکارِ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ
مولانا کفایت علی کافی کا کلام اول سے آخر تک شریعت کے دائرے میں ہے اور آپ کو سلطان نعت کہتے تھے -جب آپ کو برسرِ عام پھانسی دی گئی تو اس وقت بھی آپ کی زبان عشقِ رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں یوں نغمہ سرا تھی:
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول الله کا دین حسن رہ جائے گا
نام شاہان جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشان پنجتن رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑجائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس وکمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تن بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحب لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گےکافی ولیکن حشر تک
نعت حضرت کازبانوں پر سخن رہ جائے گا
آزادئی ملک میں حضور مفتی اعظم ہند کا کردار:
کانگریس کا نرم دل 1857/ عیسوی کی فوجی معرکہ آرائی کی ناکامی کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک آزادی کو پر امن طریقے سے چلانا چاہتا تھا، ملک کو آزاد کرانے کا جذبہ اس قدر قوی ہوگیا تھا کہ کانگریس کے نرم دل اور اہنسا وادیوں میں کچھ لیڈر اہنسا ( عدم تشدد) ترک کرکے جنگ و جدال کا راستہ اپنانا چاہتے تھے، لیکن حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں،، کیا نہتوں کو ان سے ( انگریزوں سے) جو تمام ہتھیاروں سے لیس ہوں لڑنے کا حکم دینا سختی نہیں ہے، خلاف انصاف نہیں ہے؟ کیا ایسوں کو ہتھیار چلانا تو بڑی بات جو اٹھانا بھی نہیں جانتے، جن کے وہم میں بھی کبھی نہیں گزرا کہ بندوق کس طرح اٹھاتے ہیں، تلوار کیوں کر اٹھاتے ہیں تیغ کیسے چلاتے ہیں- جنہوں نے کبھی جنگ کے ہنگامے، لڑائی کے معرکے خواب میں نہ دیکھے، انہیں توپوں کے سامنے کردینا کچھ زیادتی نہیں ہے کیا؟ ( احکام الامارت والجہاد، صفحہ نمبر/ تیس)خونی معرکہ آرائی کے نتیجے اور بھارت کے عوام کی قابلِ رحم حالت بیان کرکے حضور مفتی اعظم ہند نے تحریک آزادی میں ہنسا،، تشدد یا جنگجوئ،، کے استعمال کی مخالفت کی، یہ وہ وقت تھا جب گاندھی جی بھی ابو الکلام آزاد کو،، فتویٰ جہاد،، جاری کرنے سے نہ روک سکے- نہ ہنسا کے استعمال کی مخالفت کرسکے- حقیقت تو یہ تھی کہ تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک جہاد وغیرہ کانگریسیوں ہی نے چلائی تھیں- اور موہن داس کرم چند گاندھی جی پارٹی کے ہیڈ اور خاص الخاص بلکہ روح رواں تھے، لہٰذا یہ صرف ابو الکلام آزاد کی تحریک نہیں تھی بلکہ گاندھیائ اور کانگریسی تحریک تھی جس کی مخالفت اور جس کا رد سیدی سرکار اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے بھی کیا تھا اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بھی-
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ جہاد بالسیف،، کے حمایتی تھے لیکن مذہبِ اسلام نے،، جہاد بالسیف،، کی شرطیں بتائی ہیں اور جب وہ شرطیں پوری ہورہی ہوں تو جہاد بالسیف کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہاں اسلامی جہاد بالسیف کی شرطیں موجود تھیں لہٰذا حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ہندوستانیوں کو،، جہاد بالسیف سے روکا- ( تحریک جہاد صرف ہندوستانی مسلمانوں کے لیے چلائی گئی تھی اس لیے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے مسلمانوں کو اس سے روکا اور اس کے جان لیوا نتائج سے مسلمانوں کو خبردار کیا-
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ،، نہ ہمارے پاس ہتھیار جنگ ہی انگریز جیسے ہیں نہ ہی باقاعدہ فوج ہے نہ کوئی سلطان ہے اس لیے جہاد مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے-( احکام الامارت ولجہاد، صفحہ نمبر/ 32, )
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ابو الکلام آزاد کی تحریک جہاد کو غیر اسلامی قرار دے کر خونی جد وجہد سے روک دیا، نتیجتاً تحریک آزادی، ہنسا، تشدد کا استعمال نہیں ہوا- اگر حضور مفتی اعظم ہند دور اندیشی اور اپنی بصیرت کو بروئے کار لاکر مولانا آزاد کے فتویٰ کی تردید نہ کرتے تو اس تحریک آزادی کا حشر بھی 1857/ عیسوی کی تحریک آزادی جیسا ہوتا- ملک کی آزادی میں حضور مفتی اعظم ہند کا بڑا اہم حصہ اور کردار ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا، اور ہم آزادی کے لیے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے ممنون احسان ہیں- ( ماخذ پیغام رضا، حضور مفتی اعظم ہند نمبر، صفحہ نمبر/ 13)
آج کے اس مضمون میں مجھے صرف اتناہی کہنا ہے کہ آج منصوبہ بند انداز میں جس طرح سے مسلمانوں کی کردار کشی کی جارہی ہے اس کے پیشِ نظر ہمیں بیدار رہ کر اپنے اسلاف کی روشن و تابندہ شخصیات کو اُجاگر کرنا چاہیے- اور آنے والی نسل کے دل ودماغ میں ان کی عقیدت و محبت اور عظمت و قربانی کی شمع جلانی چاہئے اور شر پسند افراد کے باطل منصوبوں کو خاک میں ملانا چاہیے-بلکہ 15/ اگست کو ایک روایت شروع کی جائے وہ یہ کہ مدارس اور مکاتب کے اساتذہ اسکولوں اور کالجوں میں جاکر خطاب کریں اور اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ مدارس میں آکر خطاب کریں، ایسے موقع پر ہمارا پیغام اسکولوں میں پہنچ جایے گا اور اسکولوں کے اساتذہ کی تقریریں ہوں گی اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ اصلی مسلم مجاہدینِ آزادی کے حوالے سے ان کی معلومات کتنی ہے اور کن کو یہ اصلی پیرو سمجھتے ہیں، اگر بہروپیوں کا نام لیا جایے تو فوری اسی وقت ایسی تقریر ہو جایے جس میں ان کے بیان کردہ حقائق کا پردہ چاک کردیا جائے-