مرحوم راحت اندوری صاحب نے کہا تھا :
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کی جنگ آزادی میں سماج کے ہر فرد نے حصہ لیا ۔ سب نے اس دیش کو آزاد کرانے میں قربانی دی ۔اس دھرتی کو انگریزوں کے جال سے بچانے کے لئے مرد عورت ،جوان بوڑھے، امیر غریب اور ہر دھرم وجات کے لوگوں نے شرکت کی ۔مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ تن کے گورے من کے کالوں سے دودو ہاتھ کرنے میں پہل مسلمانوں نے کی ۔ فرنگیوں کے خلاف سب سے پہلے جہاد کا فتوی کسی اور نے نہیں بلکہ ایک مسلمان علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے دیا جس کی پاداش میں انہیں جلاوطن کی سزا دی گئی ۔
” وطن سے محبت نصف ایمان ہے “کا پیغام مسلمانوں نے دیا، “انقلاب زندہ باد کا نعرہ” مسلمانوں نے دیا، “سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے” کا جذبہ مسلمانوں نے دیا، “گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی” جیسی فکر مسلمانوں نے دی، “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا “جیسا ترانہ مسلمانوں نے دیا، حتی کہ لال قلعہ کی فصیل سے بانسری بیہ کرآزادی کی مبارک باد دینے والے شہنائی کے بادشاہ استاد بسم اللہ خان بھی مسلمان تھے ۔
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے اس چمن کی آبیاری کی، اپنی آن بان شان کو قربان کیا، اپنا تن من دھن لٹایا، راہ وطن میں اپنا گھربار دیا، اپنے بال بچوں کو چھوڑا، قید و بند کی صعوبتیں جھیلی، گولیوں سے اپنے سینوں چھلنی کیا، ملک بدر ہوئے، اذیت ناک عذاب سہے،پھانسی کے پھندے کو گلے لگایا، ، ولولہ انگیز خطاب کیے، بیباک مضامین لکھے، خون گرمانے والے اشعار لکھے، تحریکیں چلائیں، جلسے جلوس نکالے، انگریزوں کے خلاف احتجاج کیا، اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی مسلمانوں سے بیر، انہی سے گلے شکوے۔
رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب افسانوں میں
بھارت کی جنگ آزادی میں مسلمان ہر محاذ پر سینہ سپر رہے، انگریزوں کی ہر سازش کو بے نقاب کیا، ان کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دیا، فرنگیوں کی نیند حرام کردی، ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی، انہیں چاروں شانے چت کیا، انہیں بوریا بستر باندھنے پر مجبور کیا، لیکن افسوس کہ قوم مسلم کو اس کا صلہ سوائےبدنامی کے کچھ نہ ملا ۔ہمیں تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیا گیا، ہماری وطنیت پر شک کیا گیا مسلمانوں کے لئے اس دیش کی دھرتی کو تنگ کیا گیا، وطن سے محبت کا ثبوت مانگا گیا، ارے نادان تمہیں کیامعلوم کہ ہمارے دل میں کیا ہے ۔علامہ اقبال نے کہا تھا :
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
ہندوستانی مسلمان کہیں بھی رہے اس کا دل اپنے دیش کے لئے دھڑکتا ہے، اس کی روح وطن میں ہوتی ہے، اس کا من اپنے ملک میں لگا ہوتا ہے، دیار غیر میں وہ بے چین رہتا ہے، اسے اپنی دھرتی کی یاد ستاتی ہے۔شہنائی کے بادشاہ استاد بسم اللہ خان کے شاگرد نے امریکہ میں شہنائی سکھانے کا ادارہ قائم کیا اس میں پڑھانے کے لئے اس نے استاد بسم اللہ خان سے درخواست کی۔اسے معلوم تھا ، استاد بسم اللہ خان ہندوستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔اس لئے اس نے کہا استاد آپ کو وہاں ایسا لگے گویا آپ ہندوستان میں ہیں ۔بسم اللہ خان نے کہا کیا تم اُدھر گنگا ندی بھی لا سکتے ہو؟ مجھے گنگا جمنا کی لہروں سے پیارہے ۔ میری راگنی میں ان کا بہت بڑا کردار ہے ۔میرے فن میں نکھار اسی کو موجوں سے پیدا ہوا ہے ۔ میں ہندوستان نہیں چھوڑ سکتا ۔
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہپ
انگریز ملک سے چلے گئے مگر اپنے پیچھے نفرت کے بیچ چھوڑ گئے ۔ انہیں قوم مسلم سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔ ان کے سینے میں ہمیشہ یہ بات کچوکے لگاتی کہ یہ ملک ہم نے مسلمانوں سے چھینا ہے وہ کبھی بھی پلٹ کر وار کر سکتے ہیں اس لیے انہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔ زمانے سے ایک ساتھ سیر و شکم ہو کر رہنے والوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنایا ۔ملک کے بٹوارے کے پس پشت کئی چہرے تاریخ کے جھروکوں سے جھانک رہے ہیں ۔ محض مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانا سراسر زیادتی ہے ۔مسلمان ہمیشہ اس دیش کی ترقی کے لئے پیش پیش رہا ۔مسلمان کبھی دیش دروہی نہیں ہوسکتا ۔مسلمانوں نے ہر میدان میں وطن کا نام اونچا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہر جگہ پرچم ہند کو بلند کیا ۔اتنی قربانیاں دینے کے باوجود ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہماری حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے ۔ ہم پر باہری ہونے کا لیبل لگایا جاتا ہے ۔اس شعر کے ساتھ اپنی بات مکمل کرتا ہوں ۔
خود زباں سے کیا کہوں شاہد ہے تاریخ چمن
آج بھی میرے لہو سے ہے چمن کی آبرو
آصف شاہ ہدوی ۔ بھیونڈی مہاراشٹرا