“یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود”
آئیے آپ کی ملاقات ایک قوم سے کرواتی ہوں۔ جو خود کو کہتی تو مسلمان ہے لیکن بس زبان سے , عمل سے تو خیر دور دور تک کوئی مسلمانوں والی خوبی نظر نہیں آتی ہے۔ یہ ایک بے چاری اور قابل ترس قوم ہے جو بے تحاشہ دوسروں پر منحصر ہے۔ اس قوم والوں کی خوشیاں، غم، امیدیں، مایوسیاں اس کی اپنی کوشش اور محنت سے نہیں بلکہ دوسروں کے رویّے اور اظہارِ خیال سے حاصل ہوتی ہیں۔ ہم وطن انہیں اگر مذاق میں بھی “دیش دروہی” کہہ دیں تو دن رات اسی بات کو ثابت کرنے میں لگا دیں گے کہ ہم تو سچے دیش بھکت ہیں ، ہم ترنگا لہراتے ہیں، مدرسوں میں قومی تہوار بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں، راستے میں کھڑے ہوکر اپنے ہم وطنوں کو پانی پلاتے ہیں، ان پر پھول برساتے ہیں، بھلا کیسے دیش دروہی ہوئے؟ ان کے اسی دلچسپ راگ کو سننے کے لئے انہیں اکثر دیش دروہی یا غدار کہہ کر چھیڑا جاتا ہے۔ پڑوسی ملک اس بے چاری قوم کو چھیڑنے کے لئے کافر کہہ دیتی ہے تو ان سے بھی اچھا خاصا نمٹ ہی لیتے ہیں کہ ہم تو پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں، شاہد آفریدی کے پرستار ہیں، پڑوسیوں کا بھلا چاہتے ہیں تو پھر کافر کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر انکل سام ” السلام علیکم” کہہ دیں تو پھر اس قوم کا فرض عین ہوتا ہے کہ اسے اپنی قوم کا پھوپھا بنا کر ہی دم لیں۔ انکل سام نہ سہی ان کے آباؤاجداد کو بھی کھنگال کر دنیا والوں کو دکھا دیتے ہیں کہ دیکھو یہ ہماری قوم سے ہیں، مسلمان ہیں۔ ذاتی خوشی، ذاتی رائے اور اور ذاتی سکون کیا ہوتا ہے ان سے ابھی اس قوم والے بابلد ہیں ۔
آج کل یہی قوم اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے اپنے ہم وطنوں کو پانی پلانے اور ان پر پھول برسانے میں جی جان سے لگی ہوئی ہے۔
تقریباً مہینے بھر سے ملک کے مختلف علاقوں میں کانوڑ یاترا بڑے جوش و جذبے کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ کانوڑ یاترا میں بھگوان شیو کو ماننے والے حصہ لیتے ہیں۔اس یاترا کے دوران عقیدت مندوں کو راستے میں مختلف مقامات پر آرام گاہ، کھانا، پانی اور دیگر سہولیات بہم پہنچانے کے لئے کئی رضاکار تنظیمیں آگے آتی ہیں، جو ایک اچھی بات ہے۔ لیکن جس قوم کی میں بات کر رہی ہوں وہ ان یاتریوں کی مدد کے لئے ان تنظیموں سے بھی دو قدم آگے نکلتے ہوئے ان پر جگہ جگہ “پشپ ورشا” کر کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر خود کو دیش بھکت اور بھائی چارگی کی عظیم مثال بننے میں جٹ گئی ہے۔ کہیں کوئی کرتا -پاجامہ اور ٹوپی پہنے اپنے کانوڑ بھائی کے ساتھ یوں سیلفی لے رہا ہے جیسے اسی سیلفی سے ان کے باپ دادا تک کی دیش بھکتی ثابت ہوجائے گی اور کاغذ دکھانے کے بجائے اسی سیلفی سے ان کے ہندوستانی ہونے کا سرٹیفیکیٹ بھی مل جائے گا۔ ان تصویروں کو سوشل میڈیا پر بڑے فخریہ انداز میں پوسٹ بھی کیا جا رہا ہے تاکہ قوم کے سوئے ہوئے باقی لوگ بھی بیدار ہوجائیں اور اس نادر موقع سے فایدہ اٹھائیں۔ اپنے کانوڑ بھائیوں کو پانی پلا کر آپ نے یقیناً اچھا اور نیک کام کیا ہے۔ لیکن ذرا سنجیدگی سے سوچئے کہ کیا واقعی ان کو پھول پکڑانے یا ان پر پھول برسانے کی ضرورت تھی؟؟ وہ ایک مذہبی فریضہ ادا کر رہے ہیں آپ انہیں روک کر ،ان پر پھول برسا کر کون سی سنت ادا کر رہے ہیں ؟ کیا آپ کا اس میں بلا ضرورت شامل ہونا مناسب ہے؟ خیر اب آخری سوموار رہ گیا ہے ۔ کوئی خواہش رہ گئی ہو تو وہ بھی جلدی سے پوری کرلیں ورنہ سال بھر کا انتظار لمبا اور تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس قوم کا اپنے لوگوں کے تئیں کیسا رویہ ہے اس پر بھی نظر ثانی کر ہی لیتے ہیں۔ شب برات کے موقع پر یہ حلوہ نا بنانے والوں کو اسلام سے خارج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وہابی- سنی نامی ایک جنگ بڑے جذبے کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ دونوں ہی فرقے ایک دوسرے کا مذاق بنانے اور ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ اللہ اللہ کرکے شب برات ختم ہوتی ہے تو محرم کا مہینہ آتے ہی یہی وہابی -سنی ہاتھ دھو کر شیعہ حضرات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کچھ گالیاں انہیں دیتے ہیں ،کچھ ان سے کھاتے ہیں۔ اللہ جانے یہ ان جاہلانہ حرکتوں سے کب باز آئیں گے ، باز آئیں گے بھی یا نہیں؟
آدھی رات تک ہوٹلوں اور سڑکوں پر مٹر گشتی کرنے والی اس قوم کو کبھی اپنے حالات اور ترقی کے بارے میں فکر مند نہیں دیکھ سکتے آپ۔ یہ اپنی زندگی کے بیشتر حصے دعوت کھانے اور دعوت کھلانے میں گزارتے ہیں۔ دنیا میں آنے سے لے کر دنیا سے جانے کے بعد تک دعوتیں چلتی ہیں۔ تعلیمی ، تعمیری میدان میں کوئی خاص کارکردگی نہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں اگر اکا دکا نے اپنی محنت سے ایک مقام حاصل کر بھی لیا ہے تو باقی لوگ اس اطمینان اور جوش کے ساتھ سوشل سائٹس پر شیئر کرتے ہیں جیسے ان کا فرض بھی اداہوگیا ہو۔ کیا آپ خود محنت کرکے یہ مقام حاصل نہیں کرسکتے ؟ بالکل کرسکتے ہیں اگر دائیں بائیں سے نظریں ہٹا کر خود پر دھیان دیں۔ خود کو وقت دیں ، تعلیمی و تعمیری کاموں میں جی جان سے لگیں۔ بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے اگر تعلیم ، اصلاح اور ترقی پر دھیان دیں تو آپ بھی مثال قائم کرسکتے ہیں۔ فضولیات سے دور رہتے ہوئے خود کو ڈھنگ کے کام میں مصروف رکھیں ورنہ لوگ آپ کو یونہی روندتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں گے اور آپ تمام عمر محض ایک تماشائی بن کر تالیاں پیٹتے رہ جائیں گے۔